واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 

  

حضرت خواجہ عبدالواحدبن زید

 

رحمۃ اللہ علیہ 

 

  آپ کا اسم گرامی حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کی کنیت ابو الفضل ہے۔ آپ سلسلہء عالیہ چشتیہ کے مشہور بزرگ ہیں آپ کا تعلق بصرہ سے تھا۔ اور حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہیں اور انہی سے خرقہ ٔخلافت پایا آپ نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اکتساب علم کیا۔

آپ سے بے شمار کرامات کاظہور ہوا۔لیکن ہم یہاں صرف چند کا تذکرہ  کریں گے تاکہ ہم بزرگان دین  کو اچھی طرح جان سکیں اور ہمارا ایمان تازہ ہو۔

ایک دفعہ درویشوں کی ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر تھی جب ان پر بھوک نے غلبہ کیا تو انہوں نے حلوہ کی خواہش کی لیکن فی الوقت کوئی چیز دستیاب نہ تھی۔ آپ نے اپنا چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور اللہ تبارک و تعالی سے درویشوں کی اس جماعت کے لیے خواستگار ہوئے۔ اسی وقت آسمان سے دینار برسنے لگے۔ آپ نے درویشوں سے فرمایا کہ صرف اسی قدر دینار اٹھا لو جتنے کہ حلوہ کی تیاری کے لیے کافی ہوں۔ درویشوں نے بموجب حکم بقدر ضرورت دینار اٹھائے اور حلوہ تیار کر کے کھایا لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حلوہ میں سے ایک لقمہ بھی تناول نہ فرمایا کیونکہ آپ اپنی کرامت سے اپنا رزق حاصل کرنا پسند نہ کرتے تھے۔

ایک دن  حضرت خواجہ عبدالواحدرحمۃ اللہ علیہ   دریا کے کنارے پہنچے ۔لوگ دریا عبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہو رہے تھے۔ ملاح پہلے صرف اس شخص کو سوار کرتا جو اسے پہلے اجرت دے دیتا۔بعض غریب لوگ کرایہ نہ دے سکتے تھے لہذا وہ کنارے پر کھڑے رہتے۔ حضرت خواجہ عبدالواحدرحمۃ اللہ علیہ   نے ان کے غمگین اور شکستہ دلوں کو دیکھا تو فرمایا کہ فکر نہ کرو دریا کو میری طرف سے کہو کہ حضرت خواجہ عبدالواحدرحمۃ اللہ علیہ   کہتے ہیں کہ ہمیں راستہ دو ہم نے پار جانا ہے۔ لوگوں نے ایسا ہی کہا اس وقت دریا کا پانی وہاں سے کم ہو گیا اور تمام لوگ  کشتی سے پہلے ہی دریا عبور کرکے دوسرے  دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔

ایک دن حضرت خواجہ عبدالواحدرحمۃ اللہ علیہ   کی خدمت میں چند مفلس اور نادار لوگ آئے اور آ کر کہنے لگے کہ ہمارے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں آپ ہماری ا مداد فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا آج تمہارے گھروں میں وافر رزق پہنچے گا۔ تسلی رکھیں ۔ وہ لوگ جب اپنے اپنے گھروں کو پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے گھروں میں رنگ برنگے کھانے پکے ہوئے ہیں اور ان کے اہل وعیال کھانا کھا رہے ہیں ۔ان لوگوں نے اپنے گھر والوں سے پوچھا  ! یہ نعمت کہاں سے آئی ۔گھر والوں نے کہا کہ کچھ دیر پہلے ایک شخص آیا تھا اور ہمیں بے شمار دینار دیتا گیا اور یہ کہا کہ یہ حضرت خواجہ عبدالواحدرحمۃ اللہ علیہ   نے بھیجے ہیں ۔انہیں خرچ کرو اور اپنے کھانے  کی چیزیں منگوا لو۔

آخری عمر میں حضرت خواجہ عبدالواحدرحمۃ اللہ علیہ   نہایت بیمار ہو گئے۔ آپ کے جسم میں حرکت کی طاقت  بھی نہ رہی۔ایک خادم موجود تھا جو آپ کو وضو کروا تا تھا۔ایک دن خادم موجود نہ تھا  جو وضو کرواتا ۔آپ نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ایسا وقت بھی آ گیا ہے کہ نماز کے لیے وضو کرنے کی بھی ہمت نہیں رہی ۔مجھے کم از کم اتنی صحت تو دے کہ میں وضو کر کے نماز پڑھ لوں۔ اس کے بعد جو تیرا حکم ہو گا وہ بجا لاؤں گا۔آپ اسی وقت اٹھے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے وضو کیا نماز ادا کی ۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ پھر بیمار ہو گئے۔

سفینتہ الاولیا اور اخبار الاولیا کے مطابق آپ ۲۷ صفر ۱۷۷ ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے جبکہ سیر ا لاقطاب کے مطابق آپ ۲۷ صفر ۱۷۰ ہجری کو اس  دار فانی سے رخصت  ہوئے۔آپ کا مزار مبارک بصرہ میں واقع ہے۔